Wednesday 22 September 2021

یوں ہی آج بس تمہاری یاد آئی ہے

 یوں ہی آج بس تمہاری یاد آئی ہے غبارِ دل بڑ گیا ہے ایسا لگ رہا ہے کہ جیسے تم ساتھ ہوتی تو میں ٹوٹ کر رو پڑتا۔ اب رات کے 02 بج رہے ہیں اور میں آج ٹیک تیں سال بعد گھر کے آنگن میں ستاروں کے جھرمٹ کے نیچے سویا ہوا ہوں موسم ویسے تو بہت رنگین ہی مگر تم تو جانتی ہو میں تمہارے سوا کتنا مایوس ہوتا ہوں۔ 
تمہیں یاد ہے ایک دن تم نے کہا تھا کہ تم جب بھی مجھ سے ملتی ہو ہمیشہ تمہاری زندگی رنگیں ہو جاتی ہے۔ تمھیں لگتا تھا کہ میں بہت باذوق آدمی ہوں تم نے کہا تھا کہ  اتنے مایوس گن حالات میں،  میں ایسا کیسے کر لیتا ہوں۔
آج تمیں بتا رہا ہوں سچ یے ہے کہ جب تم سے ملتا تھا تو کوئی غم،  غم نہیں مشغلہ لگتا تھا اور دکھ سگریٹ کی پھونک کی طرح اڑا دیتا تھا مگر تمہارے سوا اب تو ہنسی بھی جیسے اندر چیر کر نکلتی ہی میری زندگی باذوق صرف تم سے تھی۔ 
دل ملنے کا ضد کر رہا ہے مگر میں تو تمہاری سالگرہ پر وعدہ کر چکا ہوں کہ اب تمھیں ملنے کی ضد نہیں کروں گا میں دل کو سمجھا لوں گا بس دو راتوں کی نیند کی قربانی دینا ہوگی تم پریشان مت ہونا۔ میں عید کے بعد کراچی آ رہا ہوں اس کے بعد شاید اٹلی چلا جاؤں دو پل کے لیئے خوشی ہوئی تھی جب آپ نے میرے اٹلی جانے والے لیٹر پر مجھے مبارکباد دی تھی مگر شاید تمہیں اندازہ نہیں کہ خوشی کے دن میں کتنا اداس ہوتا ہوں خوشی کے دن تم مجھے کتنا یاد آتی ہو۔ 
خوشی دراصل اس چیز کا ہی تو نام ہے کہ ہم اپنے چاہنے والوں کو مسکراتا دیکھیں اب جب تم ہی نہیں ہو تو میں بھلا کیسے خوش ہوں۔
آج گیا تھا اس پرانی سھیلی کے پاس اسے بتایا کہ میں شاید اٹلی چلا جائوں پتا ہے اس پاگل معصوم کو یے پتا نہیں ہے کہ اٹلی دراصل ہے کیا پوچھ رہی تھی کہ کراچی سے کتنا دور ہے میں 2 مھینوں میں گاؤں تو آیا کروں گا نا۔۔۔۔ 
آج چار سال بعد یے پہلی ملاقات تھی اس کے ساتھ مگر یار اس کے پاس شکایت نام کی کوئی چیز ہی نہیں وہ تو اب بھی میرا شکریا ادا کر رہی تھی۔ پتا نہیں کیوں جب اس کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ لیا تو جیسے چونک گیا تھا اور ڈر گیا تھا ایسے لگ رہا تھا گناہ کر رہا ہوں تم سے بیوفائی کر رہا ہوں۔ میں نے اس کا دل رکھنے کے لیے اس کے گال پر ایک کس دیا تھا اور پھر واپس آ گیا سوچ رہا ہوں اب اس سے نہیں ملوں گا۔ یار میں تو اسے  اب سوچوں گا بھی نہیں۔۔۔۔ 
یار آج پتا ہے کیا ہوا وہ خط جو تم نے مجھے دیا تھا شروعاتی دنوں میں وہ میں کراچی بھول گیا تھا آج بڑے بھائی کو کہیں سے ملا تو اس نے پکچر نکال کر بھیج دی مجھے میں نے کہا ہے اس سے عید پر سنبھال کر رکھے گا اور میں سوچ رہا ہوں ہمارے پیار کی اکلوتی نشانی کو میں ہمیشہ سنبھال کر رکھوں۔
کجھ دن پھلے مجھے لگ رہا تھا کہ مجھے نفسیاتی ماہر سے ملنے کی ضرورت ہے تو میں سائیکالوجسٹ کے پاس گیا تھا اس نے کہا تھا کہ اگر میں چاہوں تو تمھیں بھول سکتا ہوں مگر میں نے اسے کہ دیا کہ کائنات میں خدا کا نام باقی نا رہے تو کائنات کا وجود ختم ہو جائے گا یے مسلمانوں کا ماننا ہے اور میں یے مانتا ہوں کہ میری زندگی میں وہ بلکل ختم ہو جائے تو میرا وجود کسی کام کا نہیں رہے گا ۔
سب روزے رکھنے کے لیے اٹھے ہیں اور میں نیند کی گولیاں کھا رہا ہوں شاید کجھ پلوں میں نیند آ جائے۔ 
میرے ہمدم پلیز خوش رہا کرو اور صرف ایک درخواست ہے کہ اپنی خوشی کی خبر دیتی رہا کرو میں بھی خوش رہوں گا۔۔۔

0 comments:

تبصرو لکو

.

اوهان جي هر تبصري جو جواب انشاءالله جلد از جلد ڏنو ويندو