Showing posts with label اردو. Show all posts
Showing posts with label اردو. Show all posts

Wednesday 22 September 2021

یوں ہی آج بس تمہاری یاد آئی ہے

 یوں ہی آج بس تمہاری یاد آئی ہے غبارِ دل بڑ گیا ہے ایسا لگ رہا ہے کہ جیسے تم ساتھ ہوتی تو میں ٹوٹ کر رو پڑتا۔ اب رات کے 02 بج رہے ہیں اور میں آج ٹیک تیں سال بعد گھر کے آنگن میں ستاروں کے جھرمٹ کے نیچے سویا ہوا ہوں موسم ویسے تو بہت رنگین ہی مگر تم تو جانتی ہو میں تمہارے سوا کتنا مایوس ہوتا ہوں۔ 
تمہیں یاد ہے ایک دن تم نے کہا تھا کہ تم جب بھی مجھ سے ملتی ہو ہمیشہ تمہاری زندگی رنگیں ہو جاتی ہے۔ تمھیں لگتا تھا کہ میں بہت باذوق آدمی ہوں تم نے کہا تھا کہ  اتنے مایوس گن حالات میں،  میں ایسا کیسے کر لیتا ہوں۔
آج تمیں بتا رہا ہوں سچ یے ہے کہ جب تم سے ملتا تھا تو کوئی غم،  غم نہیں مشغلہ لگتا تھا اور دکھ سگریٹ کی پھونک کی طرح اڑا دیتا تھا مگر تمہارے سوا اب تو ہنسی بھی جیسے اندر چیر کر نکلتی ہی میری زندگی باذوق صرف تم سے تھی۔ 
دل ملنے کا ضد کر رہا ہے مگر میں تو تمہاری سالگرہ پر وعدہ کر چکا ہوں کہ اب تمھیں ملنے کی ضد نہیں کروں گا میں دل کو سمجھا لوں گا بس دو راتوں کی نیند کی قربانی دینا ہوگی تم پریشان مت ہونا۔ میں عید کے بعد کراچی آ رہا ہوں اس کے بعد شاید اٹلی چلا جاؤں دو پل کے لیئے خوشی ہوئی تھی جب آپ نے میرے اٹلی جانے والے لیٹر پر مجھے مبارکباد دی تھی مگر شاید تمہیں اندازہ نہیں کہ خوشی کے دن میں کتنا اداس ہوتا ہوں خوشی کے دن تم مجھے کتنا یاد آتی ہو۔ 
خوشی دراصل اس چیز کا ہی تو نام ہے کہ ہم اپنے چاہنے والوں کو مسکراتا دیکھیں اب جب تم ہی نہیں ہو تو میں بھلا کیسے خوش ہوں۔
آج گیا تھا اس پرانی سھیلی کے پاس اسے بتایا کہ میں شاید اٹلی چلا جائوں پتا ہے اس پاگل معصوم کو یے پتا نہیں ہے کہ اٹلی دراصل ہے کیا پوچھ رہی تھی کہ کراچی سے کتنا دور ہے میں 2 مھینوں میں گاؤں تو آیا کروں گا نا۔۔۔۔ 
آج چار سال بعد یے پہلی ملاقات تھی اس کے ساتھ مگر یار اس کے پاس شکایت نام کی کوئی چیز ہی نہیں وہ تو اب بھی میرا شکریا ادا کر رہی تھی۔ پتا نہیں کیوں جب اس کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ لیا تو جیسے چونک گیا تھا اور ڈر گیا تھا ایسے لگ رہا تھا گناہ کر رہا ہوں تم سے بیوفائی کر رہا ہوں۔ میں نے اس کا دل رکھنے کے لیے اس کے گال پر ایک کس دیا تھا اور پھر واپس آ گیا سوچ رہا ہوں اب اس سے نہیں ملوں گا۔ یار میں تو اسے  اب سوچوں گا بھی نہیں۔۔۔۔ 
یار آج پتا ہے کیا ہوا وہ خط جو تم نے مجھے دیا تھا شروعاتی دنوں میں وہ میں کراچی بھول گیا تھا آج بڑے بھائی کو کہیں سے ملا تو اس نے پکچر نکال کر بھیج دی مجھے میں نے کہا ہے اس سے عید پر سنبھال کر رکھے گا اور میں سوچ رہا ہوں ہمارے پیار کی اکلوتی نشانی کو میں ہمیشہ سنبھال کر رکھوں۔
کجھ دن پھلے مجھے لگ رہا تھا کہ مجھے نفسیاتی ماہر سے ملنے کی ضرورت ہے تو میں سائیکالوجسٹ کے پاس گیا تھا اس نے کہا تھا کہ اگر میں چاہوں تو تمھیں بھول سکتا ہوں مگر میں نے اسے کہ دیا کہ کائنات میں خدا کا نام باقی نا رہے تو کائنات کا وجود ختم ہو جائے گا یے مسلمانوں کا ماننا ہے اور میں یے مانتا ہوں کہ میری زندگی میں وہ بلکل ختم ہو جائے تو میرا وجود کسی کام کا نہیں رہے گا ۔
سب روزے رکھنے کے لیے اٹھے ہیں اور میں نیند کی گولیاں کھا رہا ہوں شاید کجھ پلوں میں نیند آ جائے۔ 
میرے ہمدم پلیز خوش رہا کرو اور صرف ایک درخواست ہے کہ اپنی خوشی کی خبر دیتی رہا کرو میں بھی خوش رہوں گا۔۔۔

میری پیاری تم بہت یاد آ رہی ہو۔۔۔

 میری پیاری تم بہت یاد آ رہی ہو۔۔۔
پتا ہے آج تو تم بہت یاد آئی ہو اور کم بخت نیند کی گولیوں کو بھی آج ہی ختم ہونا تھا۔ لائبریری میں کوئی نئی کتاب بھی تو نہیں تھی جسے پڑھ لیا جاتا۔ خیر کتاب ہوتی بھی نہیں پڑھ پاتا تمھیں تو پتا ہے جب تم یاد ہوتی ہو تو دنیا جھان کا پتا کہاں چلتا ہے۔
یاد آ رہے ہیں وہ رمضان جب تم مجھے سحری تک جگائے رکھتی تھی اور میں اپنی پرانی موبائل کی وجھ سے ساری رات بیڈ کے نیچے چارجر والی سائیڈ پہ ایسے کھڑا ہوا ہوتا تھا۔
اور وہ دن بھی یاد ہے جب رمضان بھی نہیں تھا اور تم بھی بات نہیں کر رہی تھی پھر بھی میں جاگا تھا پوری رات اور صبح کو تیرا شھر چھوڑنا پڑا تھا۔
آج دوسرے دفعا ایسا ہوا ہے تم نے نہیں جگا کر رکھا پھر بھی جاگ رہا ہوں۔۔۔ کیوں جاگ رہا ہوں وجھ میں خد بھی نہیں سمجھ پایا اور دماغ میں فقط تم چل رہی ہو۔۔
ساری رات سوچتا رہا ہوں تمھارے بارے میں کبھی سوچا تم ہوتی تو کیا ہوتا۔؟ کبھی سوچا اگر تم مل جائو گی تو کیا ہوگا..؟ اور اگر تم نہیں مل پائی تو گیا ہوگا۔۔؟ بس ان تین سوالوں نے مجھے ساری رات سونے نہیں دیا۔۔ 
اب دل کر رہا تھا کہ تمیں لکھوں موبائیل کھولا ہے تو کجھ سمجھ نہیں آ رہا لفظ تو لکھ رہا ہوں پر سارے بی ترتیب ہیں کوئی ترتیب نہیں بنا پا رہا میری زندگی کے طرح اب تمھیں میرے الفاظ بھی بے ترتیب ملیں گے۔۔
میری پیاری کوئل کی آواز آ رہی ہیں لگ رہا ہے صبح ہو گئی ہے مگر جب سے تم گئی ہو میری صبح نہیں ہوتی بس میری راتیں ہی چل رہی ہیں مصنوعی طور دن ہوتا بھی ہے تو مجھے تنگ اور تنگ کرنے کے لیے۔۔۔
جب بھی سائنسی طور پر جینے کی لیے ہم چیزوں کو سرچ کرتا ہوں تو خد ہی اپنے جینے پر ہنسی آتی ہے کہ زندہ بھی کیسے ہوں۔۔۔ 
پچھلے ہفتے میں صرف 6 بار کہانا کھایا تھا کمزور بھی ہوگیا ہوں مگر یار تم بن کجھ اچھا جو نہیں لگتا نا جینا اچھا لگتا ہے نا مرنا۔۔۔۔۔
اکیلا ہوگیا ہوں۔۔۔!!!! ایسا لگتا ہے پورا جہاں میرے خلاف ہے یار بھی ستانے لگے ہیں۔۔۔ یار بہت کجھ چاہا ہے میں نے مگر  جو بھی چاہا ہے سب میری حسرت بن گیا ہے وہ حسرت جو کبھی پوری نہیں ہو سکتیں ۔۔۔
اب تو بہت کجھ کھولیا ہے اور حاصل کرنے کو بھی کجھ نہیں آج پھلی بار ایسا ہوا ہے پوری رات سوچنے کے بات بس یے چند الفاظ تمھاری طرف بھیجنے کو لکھ پایا ہوں۔۔۔ حقیقی معنوں میں آج بہت بے بس سمجھ رہا ہوں خد کو۔۔۔۔
میری جاناں تم خوش رہنا۔۔
واجد

یاد جاناں۔۔۔۔۔۔۔!!!

 یاد جاناں۔۔۔۔۔۔۔!!!
سائنس پہ میرا یقین کامل ہے مگر پھر بھی کبھی کبھی تمہاری یاد کے بعد میڈیکل سائنس مذاق سی لگنے لگتی ہے۔ اور انوارمنٹل سائنس بھی سمجھ سے باھر ہے۔۔۔۔
بھلا تمہاری یاد کوئی چیز تو نہیں جس کے آنے سے خون کی رفتار میں انتھا کمی ہو جاتی ہو۔۔۔ 
تمہاری یاد میں کوئی نیوٹریشن، کیلشم یا پھر پروٹین بھی تو نہیں جس کے آنے سے بھوک ختم ہو جاتی ہو ۔۔۔
پھر ایسا کیا ہے تمہاری یاد میں جو کہ سائنس ابھی دریافت نہیں کر پائی۔۔۔۔۔؟؟؟
پتا نہیں تمھارے دور جانے سے  آکسیجن کی کمی کیوں محسوس ہوتی ہے۔۔۔
فطرت کی رنگ برنگی شامیں اداس کیوں ہو جاتی ہیں ؟
بھار کے موسم خزاں میں کیسے بدلتے ہیں۔۔۔
اور تمھارا وجود پیناڈول نہیں پھر بھی تیرے آنے سے بخار کی شکایت نہیں ہوتی۔۔۔
تمہارا وجود نمک نہیں پھر بھی خون کی رفتار پوری کیسے کر دیتا ہے۔۔۔
تمہارا وجود رائزک کی گولیاں نہیں پھر بھی کھانا وقت پر کھانے کی طلب کیوں ہوتی ہے۔۔۔۔
تم ہو تو دنیا میں آکسیجن پوری لگتی ہے۔
تم ہو تو بھار۔۔۔ بھار لگتی ہی۔۔۔
تمہارے نا ہونے کے بعد تمہارا ہونا ایسے لگتا ہے کہ جیسے کائنات کا نظام ری سیٹ ہوگیا ہو۔۔۔
اور پھر تمہاری غیر موجودگی احساس دلاتی ہے کہ جیسے سب ڈس آرڈر میں چل رہا ہے۔۔۔۔
سائنس ابھی ترقی نہیں کر سکا۔۔۔
سائنس نہیں بتا سکتی کہ تمھارا وجود اس کائنات کے لیے کیوں ضروری ہے۔۔۔
ڪج

ایک خواب جسے سچ کرنے کے لیے نیند کی نہیں مگر مسلسل جاگ کی ضرورت ہے۔۔۔۔۔۔

 ایک خواب جسے سچ کرنے کے لیے نیند کی نہیں مگر  مسلسل جاگ کی ضرورت ہے۔۔۔۔۔۔
-واجد علی عاجز
-
خوابوں کو داؤ پر لگانا بزدل اور کم ظرف لوگوں کا کام ہے۔ خوابوں کے لیے سمجھوتہ کرنا تو ٹھیک ہے مگر خوابوں پر سمجھوتہ بلکل نہیں کرنا چاہیے۔۔۔
بچپن سے ایک خواب دیکھا تھا خواب ایک زندہ دل معاشرہ دیکھنے کا۔ 
دیکھا تھا کہ تم گاؤں کے کسی پیڑ کے نیچے "اکھ چھنپ" کی راند کھیل رہی ہو تو کبھی اپنے بالوں کو ہوا میں اڑاتے ہوئے "انڈ" راند کرنے کیلئے اڑتے ہوئی خالی میدان میں جا رہی ہو۔
اور تمھارا باپ جو فقط 35 کی عمر میں بوڑھا ہوگیا ہے وہ میرے خواب میں بوڑھا نہیں دکھ رہا تھا میں نے یے بھی دیکھا کہ وہ وڈیرے کی ڈیرے پر کام نہیں کر رہا تھا نا ہی وڈیرے سے قرضہ لیا ہوا تھا البتہ گندم خریدنے کے لیے وڈیروں کی لائین اسکے بیٹھک کے آگے ضرور لگی ہوئی تھی کیوں کہ وہ گندم اگانے کا ھنر رکھتا تھا۔۔۔۔
اور کوئی نابالغ یا 35 سالا عورت سیاہ کاری کے الزام میں قتل نہیں ہوتی تھیں کسی غریب کی بیوی پر غیرت کے نام پر قتل کرنے کا فیصلا کسی وڈیرے کی پاس نہیں تھا۔
وقت کی اخباروں میں اپنے حقوق کے لیے مارچ نکالنے والی عورتوں کو "عورت مارچ کی رنڈیاں" نہیں بلکہ "لطیف کی سورمیاں" لکھا ہوا تھا ۔۔۔
کسی ادیب پر کفر کے فتوے جاری نہیں ہو رہے تھے ۔۔۔
لوگوں کو اٹھا کر قتل نہیں کیا جا رہا تھا ۔۔۔
شاگرد کے پاس بولنے کی آزادی تھی خواب دیکھنے کی بھی آزادی تھی۔۔۔۔
کوئی ھندو لڑکی کو اٹھا کر مسلمان نہیں کر رہا تھا البتہ کچھ مزاہب اپنی خوش اخلاقی کے ذریعے ترقی ضرور کر رہے تھے اور لوگوں کا دھیان اپنی طرف کھینچ رہے تھے۔۔۔
اپنے گاؤں کے لڑکوں کی 3 کرکٹ ٹیموں کی ساتھ لڑکیوں کی ٹیم کی راند بھی دیکھنے کے قابل تھی جس میں جیت لڑکیوں کی ہوے تھی اور وہ چیخ کر کہہ رہی تھیں کہ وہ کمزور نہیں کمزور مرد ہیں۔۔۔
افسوس کہ میں وہ خواب دیکھتا ہی گیا دیکھتا ہی گیا اور نیند میں ہی رہ گیا پانی کے چھینٹوں پر بھی جاگ نہ سکا
اب سوچتا ہوں کہ کاش کوئی ہوتا جو اپنے خوں کی چھینٹیں مارتا تو میں جاگ جاتا۔۔ 
مگر اب میں غلطی نہیں کروں گا اب اگر کوئی میرے جیسا خواب دیکھتے ہوئے سو گیا تو میں ضرور اپنے خون کی چھینٹیں اس پر ماروں گا تاکہ وہ جاگ سکے خواب کو حقیقت میں بدلنے کے لیے

پتا ہے کیا ہو!

 پتا ہے کیا ہو!
اکثر میں تم سے باتیں کرتا ہوں اپنی تحریر کے ذریعے۔
حسب معمول جو کجھ تم سے کہنا تھا اپنے موبائل نوٹ میں لکھ دیا تھا۔
مگر کجھ دن سے تم ان کا جواب میرے خوابوں میں آ کر دیا کرتی ہو۔ 
مگر یار گزارش ہے تم میرے خوابوں میں نا آیا کرو میں سمجھتا ہوں تم آگئی ہو پھر میں تمہارا استقبال کرنے کو اٹ بیٹھتا ہوں اور پھر نیند نہیں آتی۔
تم ایسا کرو میرے خیالوں میں آیا کرو تم میری ہی ہاتھوں اپنے جواب لکھوایا کرو۔ ویسے بھی تو میں رات کے کچھ وقت ہی تو سوتا ہوں۔ ساری رات تو تم سے باتیں کرتا ہوں نا۔ 
ہاں اگر کوئی ضروری بات ہو تو آیا کرو خوابوں میں مگر ڈانٹا نہیں کرو تمھیں پتا ہے نا راتوں میں رونی کی وجھ پوچھی جاتی ہیں اور اگر درد کے گلا کریں تو پھر انٹی بائیوٹیک کھانی پڑتی ہیں۔  تم آؤ تو صرف موں دکھلا دیا کرو بس۔۔۔
ارے ہاں کل رات بتایا تھا نا کہ تم سیریل پورا کرنے والی ہو اور پھر ناول پڑھو کی کیا ہوا اس کا سیریل پورا ہوگیا کیا تم نے ناول پڑھنا شروع کیا ہے؟
ارے ہاں تم نے بتایا تھا انٹرنشپ کا کیا بنا؟
تم اپنی سہیلیوں کے پاس کئی تھی نا وہ موٹی ناک والی کیسی تھی ؟ اور وہ دکھی آتما کا بتائو کیا بنا اس کا؟
ارے اور بات پتا ہے جب سے تمھیں خط لکھنے لگا ہوں اپنی آپ کو ہے پاگل سمجھ بیٹھا ہوں میں پاگھل کہیں کا۔۔۔ھھ
اج کل تمہاری صحت کا کیا حال ہے پچھلی دفعا تمھارے گردوں میں تکلیف تھی اب کیسی ہے؟
جواب دینا مگر خوابوں میں
نہیں پلیز خیالوں میں

دل اداس ہے تمھیں بہت یاد کر رہا ہوں۔

 دل اداس ہے تمھیں بہت یاد کر رہا ہوں۔
پتا ہے سر درد اتنا تھا کہ ایک پل کے لیئے لگا تھا اب شاید دوبارا سر درد برداشت نہیں کرنا پڑے گا۔
2 زینیکس بھی کھائی ہیں مگر نیند نے جیسے تم سے کجھ نکھرے ادھار لے لئے ہیں کم بخت آتی نہیں۔
یار پتا ہے وہ دوست جن کو میں سب کجھ سمجھتا تھا یار اب وہ مجھے کجھ نہیں سمجھتے اکیلا ہو گیا ہوں دل کر رہا ہے کہ اج تم میرے پاس ہوتی تو تمھارے کاندھوں پہ سر رکھ کہ چلا چلا کر روتا۔ اب تو آنسوں اندر جا رہے ہیں۔
یار وہ میرا دوست جو دو دو بجے مجھے سگریٹ پھنچاتا تھا جب تیری یاد میں مجھے سگریٹ پینے کا من کرتا۔
یار اج وہ سب مجھے فضول سمجھتے ہیں۔
پتا ہے اگر تمیں خط لکھنے کی عادت نا ہوتی نا میں خودکشی کر لیتا۔ اکھیں بھر آئی ہیں نا چاہتے بھی خط لکھنے میں وقفہ لے رہا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج لگاتار 10منٹ تک آنسوں نکلتے رہے اب سوچ رہا ہوں کہ آخر آنسوں کس کے لیئے تھی۔ ان دوستوں کے لیئے جن جن کو بات کرنا سکھائی یا پھر تمھارے لیئے جس سے جینا سیکھا۔۔
سگریٹ پینے کا من کر رہا ہے گاؤں میں میرا کوئی دوست نہیں جو اب مجھے سگریٹ مہیاء کرے بس ایک ہی تو تھا اپنا یار ۔۔۔۔۔۔۔
اے میری ہمدرد! یار پلیز آج رات میرے خواب میں آؤ نا مجھے اپنے کاندھوں پہ سر رکھ کر رونے دو نا پلیز۔۔۔
جسم کانپ رہا ہے خیر معمولی بات ہے یے تو جون جولائی میں بھی ہوتا ہے جب تم یاد آتی ہو یا پھر جب میرا من خودکشی کو سوچتا ہے۔۔۔
ارے ہاں کل تیری ایک دوست سے بات ہوی اس سے بات ہوئی اور اس سے بات ہو اور تمہارا ذکر نہ ہو ایسا بھی کیا ممکن ہے؟
اس نے بتایا کہ تم بھی میری باتیں یاد کرتی ہو مگر اس نے ہے بھی کمپیئر کیا کہ تم میری طرح شدت سے یاد نہیں کرتی۔ حسب معمول میں نے اس سے شکایت بھی کی کہ اب وہ مجھے تمہاری تصویریں ںہیں بھیجتی اس نے کہا کہ تم روکتی ہو یے کہے کر کہ میں تمہاری تصویریں دیکھ کر کہیں مایوس نا ہو جاؤں۔
ارے پچھلے دنوں ایک ناول پڑھی ہے "تو پڄاڻان" یار تمہارے مزاج کی ہے بھیج دوں..؟ تماری ایڈریس اب بھی کھارا در والی ہے نا۔۔۔؟؟
اچھا نہیں تمہیں ناول موصول ہونگی تو تمھارے ابا جی کو کون جواب دیگا ۔ چلو پنجاب کالونی والی سمیرا عروج کے گھر بھیج دونگا گا اس سے لے لینا ؟

ک

جانم! پتا ہے اج ہمیں آخری بار ملے

 جانم!
پتا ہے اج ہمیں آخری بار ملے 432 دن ہو گئے ہیں اور تمھیں خط لکھتے ہوئے 382 دن۔۔۔  مجھے یاد نہیں کہ ان دنوں میں کوئی ایک دن ایسا ہوا ہو کہ تمھیں خط نہیں لکھ پایا ہون۔ ہاں کبھی کبھی موبائیل نہیں ہوتا تو اپنی ڈائری پر لکھ دیتا ہوں یا پھر خواب میں تمھیں وہ ساری باتیں بتا دیتا ہوں جو خط میں لکھنی ہوتی ہیں 
تمھیں پتا ہے! ساتویں کلاس سے لیکر 10 کلاس تک فیئر بک پورے نا کرنے پر استادوں سے لکڑیاں کہاتا رہا ہوں اج بھی اگر کوئی میرے استادوں کو بتلائے کہ میں تمھیں ہر روز 2 صفحوں پر مشتمل خطوط لکھتا ہوں تو وہ کبھی یقین نہیں کریں گے۔
مگر خیر اج تم بہت یاد آئی ہو۔ اج آفیس میں بہت اداس تھا۔ اب بھی اداس ہوں۔ دل کر رہا ہے کہ 6مھینوں کی چھٹی لے کر اسلام آباد چلا جاؤں ویسے تو من کراچی کا ہے مگر وہاں تم نہیں ہوگی تو وہی اداسیاں چھائی ہوئی ملیں گی۔ 
یونیورسٹی بہت یاد آ رہی ہے کبھی کبھی من کرتا ہے رزائن کر کے کہیں یونیورسٹی چلا جاؤں مجھے ھر ورسٹی سے جنت کی ہوا جو آتی ہے مگر یار تم تو جانتی ہو میرے حالات اب تو جیسے نا مردوں میں ہوں نا زندہ میں۔۔۔
دن میں دو بار خودکشی کا خیال آتا ہے ہر دفعا خواھش مار دیتا ہوں خد کو بچانے کے خاطر۔ 
میرا پاگل دل کبھی تسلیم نہیں کرتا تھا کہ میں ایک ہارا ہوا آدمی ہوں مگر اج اس نے بھی تسلیم کر لیا کہ میں کجھ نہیں ہوں ۔۔۔ میں اب آفیسر بھی نہیں بن سکتا۔۔۔ خیر اب اگر بن بھی جاتا تو کیا کرلیتا۔۔۔
پتا ہے ہم مڈل کلاس لوگوں کا بڑا مسئلہ کیا ہے ؟
ہمیں ایک ہے وقت اپنا باپ بھی خد بننا پڑتا ہے اور بیٹا بھی۔ ہم ایک وقت استاد بھی ہوتے ہیں تو شاگرد بھی۔ ہمیں خد کے ساتھ کسی اور کے خواھشات پر بھی سوچنا ہوتا ہے۔۔۔ اور اگر اپنے سے زیادہ ان پر توجہ نا دو تو کچھ بھی کر لو تم کچھ ہو ہی نہیں۔
یار بہت مایوسی کا شکار ہو گیا ہوں اور طبیعت میں چڑچڑاپن بھی زیادہ ہو گیا ہے اس لیئے اب خد کو اکیلا کردیا ہے اب ہوٹل میں بیٹھ کر چائے نہیں پیتا اب روڈ پر واک کرنے بھی نہیں جاتا۔ دوستوں سے ملنا بھی بند کردیا ہے ہتا کہ 4 دنوں سے گھر والوں سے بھی نہیں ملا گھر آتے ہی کمرا بند کر دیتا ہوں چائے کی طلب رات 12 کے بعد ہوتی ہے جو خد بنا لیتا ہوں۔ اور کہانا کاٹ پاٹ میں میرے کمرے میں ہی پڑا ہوا ہوتا ہے جو کہ اکثر کہانا بھول جاتا ہوں
اب بھی اس ذکر پہ یاد آیا کہ میں نے کھانا نہیں کھایا چلو اب کھا ہی لیتا ہوں۔۔۔
کتابوں میں اجکل "دیار دل داستان محبت" جیئم سید کی لکھی ہوئی کتاب اور 2 چار اور کتابیں اسٹڈی ٹیبل پر موجود ہیں۔
سوچ رہا ہوں اس سائیکالوجسٹ کے پاس چلا جاؤں جس کے پاس تب گیا تھا جب تم پہلی مرتبہ چھوڑ کر چلی گئی تھی۔ اس نے علاج سے کافی بہتر ہوگیا تھا۔۔۔
اب وہی حالات دوبارا ہوگئے ہیں۔۔۔ 
یار دیکھو تم تو مجبور ہو نا ۔۔۔ پر یار میرے دوست بھی مجھے وقت نہیں دیتے جب وہ ساتھ ہوتے تھے تو میں تمہیں صرف خط لکھنے وقت یاد کرتا تھا۔۔۔
الٹا ستاتے ہیں یار بھلا دوست ایسے بھی ہوتے ہیں کیا جو ہمارے دشمن کے ساتھ مل کر ہمیں اگنور کریں۔ یار ہم نے تو کوئی حساب نہیں دکھا ہم نے دوستوں کو صرف دوست مانا تھا مگر یار انھوں نے ہمیں ٹشو پیپر سمجھا جب کام آیا اٹا لیا اور پھر پھینک دیا۔
یار تم اکیلی ہی تو ہو جس سے باتیں کرکے دل کا بار ہلکا کرتا ہوں ورنہ کوں سنتا مجھے۔
چلو تم بور ہو رہی ہو گی میں خط بند کرتا ہوں مگر تم بھی خط لکھو نا بہت دن ہوئے ہیں تمھاری طرف سے کچھ نہیں آیا صرف یاد کے سوا۔ یار آج تمھیں دیکھنے کا من 
اللہ نگہبان

آج تم بے حساب یاد آئے۔۔۔

آج تم بے حساب یاد آئے۔۔۔
واجد علی عاجز
کاش کے سائنس کجھ ایسی ایجاد کرے جس سے میں جب چاہوں تمھارا نام اپنے دماغ سے نکال دوں۔
سوچا تھا کجھ بھی ہو اب تمہیں یاد نہیں کیا جائے گا یے میں اپنے آپ سے وعدہ نبھانا جانتا ہوں مگر میرے کم بخت دوست مجھے تمہاری یاد دلا دیتے ہیں اور میں تمہیں بھول نہیں پاتا۔
اور کجھ دن تک مسلسل کچی نیند میں آفیس جانا پڑتا۔ اب تو خیر کوئی۔ یے نہیں پوچہتا کہ میری آنکھوں کا رنگ لال کیوں ہے۔ میں نے اس جھوٹ کو آخر سچ بنا ہی ڈالا ہے کہ میری آنکھیں بچپن سے ایسی ہیں۔
اب تو کوئی بھی مجھے نہیں کہتا کہ میں وقت پہ بال کیوں نہیں بنواتا سب سمجھتے ہیں میری عادت ہے۔
اب تو کوئی نہیں پوچھتا کہ میں 2 2 دن اپنے کمرے سے کیوں نہیں نکلتا،
اب تو میری آنکھوں میں نمی دیکھ کر میرے دوست بھی مجھے آنکھوں کے ڈراپس سجیسٹ کرنے لگے ہیں ۔
اب تو ڈاکٹر بھی سر درد کے لیئے زینیکس دے دیتا ہے۔
سب کجھ وہ نہیں رہا تم بھی تو بدل گئی ہو۔۔۔ میری عادتیں بھی بدل گئی ہیں اب میری ہنسی سے ہوٹل کے ویٹر خاموش کی درخواست لے کر نہیں آتے اب تو لائبریرین کو غصا دلانے والے میرے کہکے بھی تو نہیں رہے۔
اب دوست زیادہ بولنے کی شکایت بھی نہیں کرتے۔
تمہارے بقول جو فالتو کام تھے سب بھلا دیئے ہیں 
اخبار میں سماجی مسئلوں پہ کالم نہیں لکھتا 
اب سندھی اخبار کو پابندی سے پڑھنا بھی بھلادیا ہے
اب دوستوں سے فون پر 4 منٹ سے زیادہ بات نہیں کرتا۔
اب کوئی بھی کال 1 رنگ پر نہیں اٹھاتا۔
اب مسیج کا جواب بھی 30 سیکنڈ کے بعد لکھتا ہوں۔
ٹی وی پر ٹاک شو بھی نہیں دیکھتا۔
شعر جو یاد کیئے تھے سارے بھلا دیئے ہیں کیوں کہ ان میں سے کجھ تمہیں پسند نہیں تھے اور کجھ تم سمجھ نہیں پاتی تھی۔۔
تم کہتی تھی نہ کہ  یے سب تم کر کے دکھاؤ گی یے سب میں بھول جائوں گا۔
بلکل تم نے سب کر دکھایا ہے میں ہار گیا ہوں تم جیت گئی ہو۔۔۔۔
میں اپنی ہار پہ ماتم نہیں کروں گا بس تمہاری جیت پہ آج رات نیند نہیں کر پائوں گا
 
#واجدعليعاجز 

ياد جانان

 مہیں پتا ہے پچھلے 2 سالوں سے میں انتھا گرم راتوں میں بھی گھر کے آنگن کے بجائے کمرے میں کیوں سوتا ہوں ؟
چاندنی راتوں سے مجھے ڈر کیوں لگتا ہے ؟
تم نہیں جانتی کہ 12-18 کی درمیان والی راتوں میں میری جیب سے زینیکس کیون ملتی ہیں ؟
اب تو خیر زینیکس کا اثر اتنا نہیں ہوتا 4 بھی کھا لی جائیں تو نیند 4 بجہ سے پھلے نہیں آتی۔
اج وہ رات ہے جس میں بھگتنا پڑتا ہے عجیب دکھ۔۔
اج چمکتے ہوئے چاند اور ستاروں کی نیچے سویا تو تیرے سورت یاد آگئی چاند کم بخت ہمیشہ تیری تصویر دکہلا کے رولاتا ہے۔
نہیں لکھا پاتا اب تمھارے یاد میں کوئی صحیفے۔۔۔ کاش آنسوں لکے جاتے اور واٹس ایپ بھی کی جاتے 😰

جانم! محبت کرنا بھی ایک خوبصورت احساس ہے

 انم! محبت کرنا بھی ایک خوبصورت احساس ہے مگر معاف کرنا یے محبت بھی ان باقی کاموں میں آتی ہے جن کو ہم مغربی تہذیب کا حصہ سمجھتے ہیں۔ لحاظہ ہمارے معاشرے میں بھی محبت گناہ ہے۔
مگر جاناں! تم جانتی ہو محبت تو ہو جاتی ہے سب ضروریات کے پورے ہونے کہ باوجود بھی کیوں کے محبت کوئی ضرورت نہیں ہے۔ محبت میں تو اذیت عذاب پتا نہیں کیا کیا ہے مگر خیر محبت سھنی کو سرد راتوں میں دریا میں بھی اتراتی ہے تو وطن کے  کسی سپاھی کو ٹارچر سیلوں میں بھی لے جاتی ہے مگر ختم نہیں ہوتی۔
جانم! مجھے لگتا ہے کہ محبت کا دن تیرے جنم پہ ہونا چاہیے تھا مگر میرا خیال ہے خیر سب کے محبوبہ کا جنم دن ان کا محبت کا دن ہو۔ مگر جب بھی محبت لفظ کی ابتدا سوچتا ہوں تم ہاد آتی ہو۔
جانم! تمھیں پتا ہے اس دن پر اس لیئے بھی ساری رات جاگنا پڑتا ہے کہ صبح کو جلدی اٹھ کر کہیں دل تیرے ملنے کی ضد نہ کرے تیرا ملنا ممکن تو ہے لیکن میں نے کہا نا کہ محبت  کم بخت بھی مغربی تہذیب سی لگنی لگی ہے اور ملنا۔ ملنا تو ہے ہی مغربی تہذیب ناعوذ اللہ سوچو بھی مت۔۔۔
جانم!  تم جانا اس باغ میں جہاں سے اکثر ہم پھول لایا کرتے تھے پھول بھی لینا اور چچا پھول فروش کو پیسے بھی کجھ زیادہ  دینا شاید تمھیں اکیلا دیکھ کر وہ دعا نا دے سکیں جو ہر دفعا دیتے ہیں مگر خیر انھی یے بھی نہیں کہنا کہ میری کم بختی کی وجہ سے ان کی دعا بھی قبول نا ہو پائی۔ 
جانم! ایک پھول ھمیشہ کی طرح اپنے پسندیدہ ناول میں رکھ دینا کیوں کے پھول جنہیں تمہارے ھاتھ نصیب ہوی ہون وہ اپنی خوشبو کبھی نہیں چھوڑتے اور جب۔ جب تمہارے گھٹنوں میں دم نا رہے تو وہ پھول ان دنوں کی 14 فروری میں تمھیں کام آئیں گے اور شاید اس وقت تمہیں احساس ہو کہ پھول خریدنے جانا آساں نہیں ہوتا کیا کیا سہنا پڑتا ہے تو تبھی تمھیں مجھ سے شاید پھول نا دینی کی شکایت نا رہے۔
جانم! اس دن پر بہت یاد آتی ہے۔  مگر خیر تمھیں کیا پتا کے یاد میں جاگنے والوں کی آنکھیں کیسی ہوتی ہیں تمھیں کیا پتا کہ زیادہ نیند کرنے والے محبت کے دن بھی ایسا کیوں کرتے ہیں؟ تمھیں کیا پتا کے چاہ کے باوجود نا مل پانے کی اذیت میں آنکھوں کا رنگ کیون بدلتا ہے۔
جانم! تم یے سب جاننا بھی نہیں تم صرف یے جاننا کہ محبت مل جائے تو راتیں روشن کیوں ہوجاتی ہیں۔ اور محبت ملنے پہ زمین سرسبز کیوں لگتی یے۔۔۔۔۔چ
جانم! محبت کے دن پر پھول نہیں ہیں مگر پھر بھی مجھے تم سے محبت ہے اور محبت میں مفاصلہ یوں بھی ضروری ہے کہ یے مغربی روایت ہے۔۔
#واجد

الھائي ڇو اوھان جون اکيون ياد آيون...!!

الھائي ڇو اوھان جون اکيون ياد آيون...!!
آج جیسے آفیس سے نکلا تو موسم کی سختی دیکھ کر تھوڑا گھبرا گیا، ویسے تو موسم بہت خوبصورت تھا مگر ہم مڈل کلاس کے لوگوں کو سردی ہو یا گرمی دونوں عذاب کی طرح جھیلنی پڑتی ہیں، چلو گھر تو جانا ہی تھا تو میں گرم کپڑے پہن کر نکل پڑا۔ 
اچانک بادلوں نے برسنا شروع کر دیا اور میرے کانوں میں لگے ایئر پوٹس میں ایاز کا گانا بج رہا تھا " بادلو بادلو ڪجھ تہ برسي وڃو پل ڪي ترسي وڃو ھن بيابان ۾" ویسے تو میں ابھی شھر میں ہی موجود تھا مگر کیا رونقیں جب دل کی تمنا پوری کرنے والے شخص کی یاد آئے تو ھرطرف بیاباں ہی لگتا ہے۔۔ 
ویسی تو بارش اور بارشوں میں خوار ہونا ہم جیسے مڈل کلاس لوگوں کے لیئے کوئی بڑی بات نہیں پر آج کے خواری کا ماضی سے تعلق اتنا گہرا تھا کے لکھنے پر مجبور کر دیا 
وہی نومبر وہی بارش وہی شام وہی یاد۔۔۔۔۔مگر وہ شخص کیوں میسر نہیں۔۔۔؟؟
ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ میرے کانوں میں لگے ایئرفون سے ضیاء محیودین کی آواز میں فیض کی نظم چلانا شروع ہوئی تو جیسی میرا پورا خیال تیری آنکھوں کے طرف ہی چلا گیا "تیری آنکھوں کے سوا دنیا میں اور رکھا بھی کیا ہے"...... 
 پھر سے ایاز کا ایک اور لکھا سونگ چلا کہ۔ تولاءِ تڪيندي ڏيئا اجھاڻا ڇو ڪون آئين تون رات راڻا " ویسے بھی چراگ بجنے والی موسم میں یاد جاناں کو  بھلا کون روک سکتا ہے۔۔۔۔ تمھیں یاد ہے ؟ وہ نومبر کے ہی دن تھے اور وہ ہلکی بازش ۔۔۔ مگر تم بھی تھے آج نہیں ہو آج تمھاری یاد ہے
اچانک موٹر پھسلی تو یاد آیا ارے میاں ابھی بھی بائیک پر ہیں ۔۔ دل تو سمجھا تیرے پھلو میں بیٹھ کر محفلیں لگا رہے ہیں۔۔
جب صادق کی آواز میں ایاز کا سونگ "ٿي املتاس تان ڪوڪ ڪويل ڪري ھو پري آ پري آ پري آ پري"  ایسے لگا کہ جیسے ایاز میری حالت دیکھ کر بتا رہے ہوں کہ وہ دور ہیں اتنا دور کہ کارونجھر جبل جیسے 50 جبل بھی کراس کر لیں تو ایک قدم اسکے طرف بڑے۔۔۔۔ جیسے سندھی سمندر جیسے سات سمندر پار کریں تو اس کے دروازے تک پہنچیں جیسے ان تک پہنچنے کے لیئے دادا آدم کی عمر چاہیے ۔۔۔۔
اور پھر شفیع فقیر کی آواز میں باغی بول پڑے "ھن کي ڀيٽيون ته ڪنھن سان ڀلا ڀيٽيون جي ٿا ڀيٽيون خدا سان ڪفر ٿيو وڃي" 
نومبر ھر سال اپنی روایت کیوں پوری کرتا ہے نا جانے کیوں نومبر کی ایک برسات تیری یاد سے بھیگا دیتی ہے مایوس اور اداس کر دیتی ہے اور پھر بابا بھٹائی کی پاس جاکر تیری خاطر جستجو کے راستے ڈھونڈے جاتے ہیں۔۔
واجد علی عاجز