Showing posts with label اردو. Show all posts
Showing posts with label اردو. Show all posts

Wednesday, 22 September 2021

یوں ہی آج بس تمہاری یاد آئی ہے

 یوں ہی آج بس تمہاری یاد آئی ہے غبارِ دل بڑ گیا ہے ایسا لگ رہا ہے کہ جیسے تم ساتھ ہوتی تو میں ٹوٹ کر رو پڑتا۔ اب رات کے 02 بج رہے ہیں اور میں آج ٹیک تیں سال بعد گھر کے آنگن میں ستاروں کے جھرمٹ کے نیچے سویا ہوا ہوں موسم ویسے تو بہت رنگین ہی مگر تم تو جانتی ہو میں تمہارے سوا کتنا مایوس ہوتا ہوں۔ تمہیں یاد ہے ایک دن تم نے کہا تھا کہ تم جب بھی مجھ سے ملتی ہو ہمیشہ تمہاری زندگی رنگیں ہو جاتی ہے۔ تمھیں لگتا تھا کہ میں بہت باذوق آدمی ہوں تم نے کہا تھا کہ  اتنے مایوس گن حالات میں،  میں ایسا کیسے کر لیتا ہوں۔آج تمیں بتا رہا ہوں سچ یے...

میری پیاری تم بہت یاد آ رہی ہو۔۔۔

 میری پیاری تم بہت یاد آ رہی ہو۔۔۔پتا ہے آج تو تم بہت یاد آئی ہو اور کم بخت نیند کی گولیوں کو بھی آج ہی ختم ہونا تھا۔ لائبریری میں کوئی نئی کتاب بھی تو نہیں تھی جسے پڑھ لیا جاتا۔ خیر کتاب ہوتی بھی نہیں پڑھ پاتا تمھیں تو پتا ہے جب تم یاد ہوتی ہو تو دنیا جھان کا پتا کہاں چلتا ہے۔یاد آ رہے ہیں وہ رمضان جب تم مجھے سحری تک جگائے رکھتی تھی اور میں اپنی پرانی موبائل کی وجھ سے ساری رات بیڈ کے نیچے چارجر والی سائیڈ پہ ایسے کھڑا ہوا ہوتا تھا۔اور وہ دن بھی یاد ہے جب رمضان بھی نہیں تھا اور تم بھی بات نہیں کر رہی تھی پھر بھی میں جاگا تھا پوری رات اور صبح...

یاد جاناں۔۔۔۔۔۔۔!!!

 یاد جاناں۔۔۔۔۔۔۔!!!سائنس پہ میرا یقین کامل ہے مگر پھر بھی کبھی کبھی تمہاری یاد کے بعد میڈیکل سائنس مذاق سی لگنے لگتی ہے۔ اور انوارمنٹل سائنس بھی سمجھ سے باھر ہے۔۔۔۔بھلا تمہاری یاد کوئی چیز تو نہیں جس کے آنے سے خون کی رفتار میں انتھا کمی ہو جاتی ہو۔۔۔ تمہاری یاد میں کوئی نیوٹریشن، کیلشم یا پھر پروٹین بھی تو نہیں جس کے آنے سے بھوک ختم ہو جاتی ہو ۔۔۔پھر ایسا کیا ہے تمہاری یاد میں جو کہ سائنس ابھی دریافت نہیں کر پائی۔۔۔۔۔؟؟؟پتا نہیں تمھارے دور جانے سے  آکسیجن کی کمی کیوں محسوس ہوتی ہے۔۔۔فطرت کی رنگ برنگی شامیں اداس کیوں ہو جاتی ہیں...

ایک خواب جسے سچ کرنے کے لیے نیند کی نہیں مگر مسلسل جاگ کی ضرورت ہے۔۔۔۔۔۔

 ایک خواب جسے سچ کرنے کے لیے نیند کی نہیں مگر  مسلسل جاگ کی ضرورت ہے۔۔۔۔۔۔-واجد علی عاجز-خوابوں کو داؤ پر لگانا بزدل اور کم ظرف لوگوں کا کام ہے۔ خوابوں کے لیے سمجھوتہ کرنا تو ٹھیک ہے مگر خوابوں پر سمجھوتہ بلکل نہیں کرنا چاہیے۔۔۔بچپن سے ایک خواب دیکھا تھا خواب ایک زندہ دل معاشرہ دیکھنے کا۔ دیکھا تھا کہ تم گاؤں کے کسی پیڑ کے نیچے "اکھ چھنپ" کی راند کھیل رہی ہو تو کبھی اپنے بالوں کو ہوا میں اڑاتے ہوئے "انڈ" راند کرنے کیلئے اڑتے ہوئی خالی میدان میں جا رہی ہو۔اور تمھارا باپ جو فقط 35 کی عمر میں بوڑھا ہوگیا ہے وہ میرے خواب میں بوڑھا نہیں...

پتا ہے کیا ہو!

 پتا ہے کیا ہو!اکثر میں تم سے باتیں کرتا ہوں اپنی تحریر کے ذریعے۔حسب معمول جو کجھ تم سے کہنا تھا اپنے موبائل نوٹ میں لکھ دیا تھا۔مگر کجھ دن سے تم ان کا جواب میرے خوابوں میں آ کر دیا کرتی ہو۔ مگر یار گزارش ہے تم میرے خوابوں میں نا آیا کرو میں سمجھتا ہوں تم آگئی ہو پھر میں تمہارا استقبال کرنے کو اٹ بیٹھتا ہوں اور پھر نیند نہیں آتی۔تم ایسا کرو میرے خیالوں میں آیا کرو تم میری ہی ہاتھوں اپنے جواب لکھوایا کرو۔ ویسے بھی تو میں رات کے کچھ وقت ہی تو سوتا ہوں۔ ساری رات تو تم سے باتیں کرتا ہوں نا۔ ہاں اگر کوئی ضروری بات ہو تو آیا کرو خوابوں...

دل اداس ہے تمھیں بہت یاد کر رہا ہوں۔

 دل اداس ہے تمھیں بہت یاد کر رہا ہوں۔پتا ہے سر درد اتنا تھا کہ ایک پل کے لیئے لگا تھا اب شاید دوبارا سر درد برداشت نہیں کرنا پڑے گا۔2 زینیکس بھی کھائی ہیں مگر نیند نے جیسے تم سے کجھ نکھرے ادھار لے لئے ہیں کم بخت آتی نہیں۔یار پتا ہے وہ دوست جن کو میں سب کجھ سمجھتا تھا یار اب وہ مجھے کجھ نہیں سمجھتے اکیلا ہو گیا ہوں دل کر رہا ہے کہ اج تم میرے پاس ہوتی تو تمھارے کاندھوں پہ سر رکھ کہ چلا چلا کر روتا۔ اب تو آنسوں اندر جا رہے ہیں۔یار وہ میرا دوست جو دو دو بجے مجھے سگریٹ پھنچاتا تھا جب تیری یاد میں مجھے سگریٹ پینے کا من کرتا۔یار اج وہ سب مجھے فضول...

جانم! پتا ہے اج ہمیں آخری بار ملے

 جانم!پتا ہے اج ہمیں آخری بار ملے 432 دن ہو گئے ہیں اور تمھیں خط لکھتے ہوئے 382 دن۔۔۔  مجھے یاد نہیں کہ ان دنوں میں کوئی ایک دن ایسا ہوا ہو کہ تمھیں خط نہیں لکھ پایا ہون۔ ہاں کبھی کبھی موبائیل نہیں ہوتا تو اپنی ڈائری پر لکھ دیتا ہوں یا پھر خواب میں تمھیں وہ ساری باتیں بتا دیتا ہوں جو خط میں لکھنی ہوتی ہیں تمھیں پتا ہے! ساتویں کلاس سے لیکر 10 کلاس تک فیئر بک پورے نا کرنے پر استادوں سے لکڑیاں کہاتا رہا ہوں اج بھی اگر کوئی میرے استادوں کو بتلائے کہ میں تمھیں ہر روز 2 صفحوں پر مشتمل خطوط لکھتا ہوں تو وہ کبھی یقین نہیں کریں گے۔مگر خیر...

آج تم بے حساب یاد آئے۔۔۔

آج تم بے حساب یاد آئے۔۔۔واجد علی عاجزکاش کے سائنس کجھ ایسی ایجاد کرے جس سے میں جب چاہوں تمھارا نام اپنے دماغ سے نکال دوں۔سوچا تھا کجھ بھی ہو اب تمہیں یاد نہیں کیا جائے گا یے میں اپنے آپ سے وعدہ نبھانا جانتا ہوں مگر میرے کم بخت دوست مجھے تمہاری یاد دلا دیتے ہیں اور میں تمہیں بھول نہیں پاتا۔اور کجھ دن تک مسلسل کچی نیند میں آفیس جانا پڑتا۔ اب تو خیر کوئی۔ یے نہیں پوچہتا کہ میری آنکھوں کا رنگ لال کیوں ہے۔ میں نے اس جھوٹ کو آخر سچ بنا ہی ڈالا ہے کہ میری آنکھیں بچپن سے ایسی ہیں۔اب تو کوئی بھی مجھے نہیں کہتا کہ میں وقت پہ بال کیوں نہیں بنواتا سب سمجھتے...

ياد جانان

 مہیں پتا ہے پچھلے 2 سالوں سے میں انتھا گرم راتوں میں بھی گھر کے آنگن کے بجائے کمرے میں کیوں سوتا ہوں ؟چاندنی راتوں سے مجھے ڈر کیوں لگتا ہے ؟تم نہیں جانتی کہ 12-18 کی درمیان والی راتوں میں میری جیب سے زینیکس کیون ملتی ہیں ؟اب تو خیر زینیکس کا اثر اتنا نہیں ہوتا 4 بھی کھا لی جائیں تو نیند 4 بجہ سے پھلے نہیں آتی۔اج وہ رات ہے جس میں بھگتنا پڑتا ہے عجیب دکھ۔۔اج چمکتے ہوئے چاند اور ستاروں کی نیچے سویا تو تیرے سورت یاد آگئی چاند کم بخت ہمیشہ تیری تصویر دکہلا کے رولاتا ہے۔نہیں لکھا پاتا اب تمھارے یاد میں کوئی صحیفے۔۔۔ کاش آنسوں لکے جاتے اور واٹس...

جانم! محبت کرنا بھی ایک خوبصورت احساس ہے

 انم! محبت کرنا بھی ایک خوبصورت احساس ہے مگر معاف کرنا یے محبت بھی ان باقی کاموں میں آتی ہے جن کو ہم مغربی تہذیب کا حصہ سمجھتے ہیں۔ لحاظہ ہمارے معاشرے میں بھی محبت گناہ ہے۔مگر جاناں! تم جانتی ہو محبت تو ہو جاتی ہے سب ضروریات کے پورے ہونے کہ باوجود بھی کیوں کے محبت کوئی ضرورت نہیں ہے۔ محبت میں تو اذیت عذاب پتا نہیں کیا کیا ہے مگر خیر محبت سھنی کو سرد راتوں میں دریا میں بھی اتراتی ہے تو وطن کے  کسی سپاھی کو ٹارچر سیلوں میں بھی لے جاتی ہے مگر ختم نہیں ہوتی۔جانم! مجھے لگتا ہے کہ محبت کا دن تیرے جنم پہ ہونا چاہیے تھا مگر میرا خیال ہے خیر سب...

الھائي ڇو اوھان جون اکيون ياد آيون...!!

الھائي ڇو اوھان جون اکيون ياد آيون...!!آج جیسے آفیس سے نکلا تو موسم کی سختی دیکھ کر تھوڑا گھبرا گیا، ویسے تو موسم بہت خوبصورت تھا مگر ہم مڈل کلاس کے لوگوں کو سردی ہو یا گرمی دونوں عذاب کی طرح جھیلنی پڑتی ہیں، چلو گھر تو جانا ہی تھا تو میں گرم کپڑے پہن کر نکل پڑا۔ اچانک بادلوں نے برسنا شروع کر دیا اور میرے کانوں میں لگے ایئر پوٹس میں ایاز کا گانا بج رہا تھا " بادلو بادلو ڪجھ تہ برسي وڃو پل ڪي ترسي وڃو ھن بيابان ۾" ویسے تو میں ابھی شھر میں ہی موجود تھا مگر کیا رونقیں جب دل کی تمنا پوری کرنے والے شخص کی یاد آئے تو ھرطرف بیاباں ہی لگتا ہے۔۔ ویسی...

 
© 2016 Designed & Translatedby Aamir Khan Chachar