Wednesday, 22 September 2021

آج تم بے حساب یاد آئے۔۔۔

آج تم بے حساب یاد آئے۔۔۔
واجد علی عاجز
کاش کے سائنس کجھ ایسی ایجاد کرے جس سے میں جب چاہوں تمھارا نام اپنے دماغ سے نکال دوں۔
سوچا تھا کجھ بھی ہو اب تمہیں یاد نہیں کیا جائے گا یے میں اپنے آپ سے وعدہ نبھانا جانتا ہوں مگر میرے کم بخت دوست مجھے تمہاری یاد دلا دیتے ہیں اور میں تمہیں بھول نہیں پاتا۔
اور کجھ دن تک مسلسل کچی نیند میں آفیس جانا پڑتا۔ اب تو خیر کوئی۔ یے نہیں پوچہتا کہ میری آنکھوں کا رنگ لال کیوں ہے۔ میں نے اس جھوٹ کو آخر سچ بنا ہی ڈالا ہے کہ میری آنکھیں بچپن سے ایسی ہیں۔
اب تو کوئی بھی مجھے نہیں کہتا کہ میں وقت پہ بال کیوں نہیں بنواتا سب سمجھتے ہیں میری عادت ہے۔
اب تو کوئی نہیں پوچھتا کہ میں 2 2 دن اپنے کمرے سے کیوں نہیں نکلتا،
اب تو میری آنکھوں میں نمی دیکھ کر میرے دوست بھی مجھے آنکھوں کے ڈراپس سجیسٹ کرنے لگے ہیں ۔
اب تو ڈاکٹر بھی سر درد کے لیئے زینیکس دے دیتا ہے۔
سب کجھ وہ نہیں رہا تم بھی تو بدل گئی ہو۔۔۔ میری عادتیں بھی بدل گئی ہیں اب میری ہنسی سے ہوٹل کے ویٹر خاموش کی درخواست لے کر نہیں آتے اب تو لائبریرین کو غصا دلانے والے میرے کہکے بھی تو نہیں رہے۔
اب دوست زیادہ بولنے کی شکایت بھی نہیں کرتے۔
تمہارے بقول جو فالتو کام تھے سب بھلا دیئے ہیں 
اخبار میں سماجی مسئلوں پہ کالم نہیں لکھتا 
اب سندھی اخبار کو پابندی سے پڑھنا بھی بھلادیا ہے
اب دوستوں سے فون پر 4 منٹ سے زیادہ بات نہیں کرتا۔
اب کوئی بھی کال 1 رنگ پر نہیں اٹھاتا۔
اب مسیج کا جواب بھی 30 سیکنڈ کے بعد لکھتا ہوں۔
ٹی وی پر ٹاک شو بھی نہیں دیکھتا۔
شعر جو یاد کیئے تھے سارے بھلا دیئے ہیں کیوں کہ ان میں سے کجھ تمہیں پسند نہیں تھے اور کجھ تم سمجھ نہیں پاتی تھی۔۔
تم کہتی تھی نہ کہ  یے سب تم کر کے دکھاؤ گی یے سب میں بھول جائوں گا۔
بلکل تم نے سب کر دکھایا ہے میں ہار گیا ہوں تم جیت گئی ہو۔۔۔۔
میں اپنی ہار پہ ماتم نہیں کروں گا بس تمہاری جیت پہ آج رات نیند نہیں کر پائوں گا
 
#واجدعليعاجز 

0 comments:

تبصرو لکو

.

اوهان جي هر تبصري جو جواب انشاءالله جلد از جلد ڏنو ويندو