آج جیسے آفیس سے نکلا تو موسم کی سختی دیکھ کر تھوڑا گھبرا گیا، ویسے تو موسم بہت خوبصورت تھا مگر ہم مڈل کلاس کے لوگوں کو سردی ہو یا گرمی دونوں عذاب کی طرح جھیلنی پڑتی ہیں، چلو گھر تو جانا ہی تھا تو میں گرم کپڑے پہن کر نکل پڑا۔
اچانک بادلوں نے برسنا شروع کر دیا اور میرے کانوں میں لگے ایئر پوٹس میں ایاز کا گانا بج رہا تھا " بادلو بادلو ڪجھ تہ برسي وڃو پل ڪي ترسي وڃو ھن بيابان ۾" ویسے تو میں ابھی شھر میں ہی موجود تھا مگر کیا رونقیں جب دل کی تمنا پوری کرنے والے شخص کی یاد آئے تو ھرطرف بیاباں ہی لگتا ہے۔۔
ویسی تو بارش اور بارشوں میں خوار ہونا ہم جیسے مڈل کلاس لوگوں کے لیئے کوئی بڑی بات نہیں پر آج کے خواری کا ماضی سے تعلق اتنا گہرا تھا کے لکھنے پر مجبور کر دیا
وہی نومبر وہی بارش وہی شام وہی یاد۔۔۔۔۔مگر وہ شخص کیوں میسر نہیں۔۔۔؟؟
ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ میرے کانوں میں لگے ایئرفون سے ضیاء محیودین کی آواز میں فیض کی نظم چلانا شروع ہوئی تو جیسی میرا پورا خیال تیری آنکھوں کے طرف ہی چلا گیا "تیری آنکھوں کے سوا دنیا میں اور رکھا بھی کیا ہے"......
پھر سے ایاز کا ایک اور لکھا سونگ چلا کہ۔ تولاءِ تڪيندي ڏيئا اجھاڻا ڇو ڪون آئين تون رات راڻا " ویسے بھی چراگ بجنے والی موسم میں یاد جاناں کو بھلا کون روک سکتا ہے۔۔۔۔ تمھیں یاد ہے ؟ وہ نومبر کے ہی دن تھے اور وہ ہلکی بازش ۔۔۔ مگر تم بھی تھے آج نہیں ہو آج تمھاری یاد ہے
اچانک موٹر پھسلی تو یاد آیا ارے میاں ابھی بھی بائیک پر ہیں ۔۔ دل تو سمجھا تیرے پھلو میں بیٹھ کر محفلیں لگا رہے ہیں۔۔
جب صادق کی آواز میں ایاز کا سونگ "ٿي املتاس تان ڪوڪ ڪويل ڪري ھو پري آ پري آ پري آ پري" ایسے لگا کہ جیسے ایاز میری حالت دیکھ کر بتا رہے ہوں کہ وہ دور ہیں اتنا دور کہ کارونجھر جبل جیسے 50 جبل بھی کراس کر لیں تو ایک قدم اسکے طرف بڑے۔۔۔۔ جیسے سندھی سمندر جیسے سات سمندر پار کریں تو اس کے دروازے تک پہنچیں جیسے ان تک پہنچنے کے لیئے دادا آدم کی عمر چاہیے ۔۔۔۔
اور پھر شفیع فقیر کی آواز میں باغی بول پڑے "ھن کي ڀيٽيون ته ڪنھن سان ڀلا ڀيٽيون جي ٿا ڀيٽيون خدا سان ڪفر ٿيو وڃي"
نومبر ھر سال اپنی روایت کیوں پوری کرتا ہے نا جانے کیوں نومبر کی ایک برسات تیری یاد سے بھیگا دیتی ہے مایوس اور اداس کر دیتی ہے اور پھر بابا بھٹائی کی پاس جاکر تیری خاطر جستجو کے راستے ڈھونڈے جاتے ہیں۔۔
واجد علی عاجز