انم! محبت کرنا بھی ایک خوبصورت احساس ہے مگر معاف کرنا یے محبت بھی ان باقی کاموں میں آتی ہے جن کو ہم مغربی تہذیب کا حصہ سمجھتے ہیں۔ لحاظہ ہمارے معاشرے میں بھی محبت گناہ ہے۔
مگر جاناں! تم جانتی ہو محبت تو ہو جاتی ہے سب ضروریات کے پورے ہونے کہ باوجود بھی کیوں کے محبت کوئی ضرورت نہیں ہے۔ محبت میں تو اذیت عذاب پتا نہیں کیا کیا ہے مگر خیر محبت سھنی کو سرد راتوں میں دریا میں بھی اتراتی ہے تو وطن کے کسی سپاھی کو ٹارچر سیلوں میں بھی لے جاتی ہے مگر ختم نہیں ہوتی۔
جانم! مجھے لگتا ہے کہ محبت کا دن تیرے جنم پہ ہونا چاہیے تھا مگر میرا خیال ہے خیر سب کے محبوبہ کا جنم دن ان کا محبت کا دن ہو۔ مگر جب بھی محبت لفظ کی ابتدا سوچتا ہوں تم ہاد آتی ہو۔
جانم! تمھیں پتا ہے اس دن پر اس لیئے بھی ساری رات جاگنا پڑتا ہے کہ صبح کو جلدی اٹھ کر کہیں دل تیرے ملنے کی ضد نہ کرے تیرا ملنا ممکن تو ہے لیکن میں نے کہا نا کہ محبت کم بخت بھی مغربی تہذیب سی لگنی لگی ہے اور ملنا۔ ملنا تو ہے ہی مغربی تہذیب ناعوذ اللہ سوچو بھی مت۔۔۔
جانم! تم جانا اس باغ میں جہاں سے اکثر ہم پھول لایا کرتے تھے پھول بھی لینا اور چچا پھول فروش کو پیسے بھی کجھ زیادہ دینا شاید تمھیں اکیلا دیکھ کر وہ دعا نا دے سکیں جو ہر دفعا دیتے ہیں مگر خیر انھی یے بھی نہیں کہنا کہ میری کم بختی کی وجہ سے ان کی دعا بھی قبول نا ہو پائی۔
جانم! ایک پھول ھمیشہ کی طرح اپنے پسندیدہ ناول میں رکھ دینا کیوں کے پھول جنہیں تمہارے ھاتھ نصیب ہوی ہون وہ اپنی خوشبو کبھی نہیں چھوڑتے اور جب۔ جب تمہارے گھٹنوں میں دم نا رہے تو وہ پھول ان دنوں کی 14 فروری میں تمھیں کام آئیں گے اور شاید اس وقت تمہیں احساس ہو کہ پھول خریدنے جانا آساں نہیں ہوتا کیا کیا سہنا پڑتا ہے تو تبھی تمھیں مجھ سے شاید پھول نا دینی کی شکایت نا رہے۔
جانم! اس دن پر بہت یاد آتی ہے۔ مگر خیر تمھیں کیا پتا کے یاد میں جاگنے والوں کی آنکھیں کیسی ہوتی ہیں تمھیں کیا پتا کہ زیادہ نیند کرنے والے محبت کے دن بھی ایسا کیوں کرتے ہیں؟ تمھیں کیا پتا کے چاہ کے باوجود نا مل پانے کی اذیت میں آنکھوں کا رنگ کیون بدلتا ہے۔
جانم! تم یے سب جاننا بھی نہیں تم صرف یے جاننا کہ محبت مل جائے تو راتیں روشن کیوں ہوجاتی ہیں۔ اور محبت ملنے پہ زمین سرسبز کیوں لگتی یے۔۔۔۔۔چ
جانم! محبت کے دن پر پھول نہیں ہیں مگر پھر بھی مجھے تم سے محبت ہے اور محبت میں مفاصلہ یوں بھی ضروری ہے کہ یے مغربی روایت ہے۔۔
#واجد
مگر جاناں! تم جانتی ہو محبت تو ہو جاتی ہے سب ضروریات کے پورے ہونے کہ باوجود بھی کیوں کے محبت کوئی ضرورت نہیں ہے۔ محبت میں تو اذیت عذاب پتا نہیں کیا کیا ہے مگر خیر محبت سھنی کو سرد راتوں میں دریا میں بھی اتراتی ہے تو وطن کے کسی سپاھی کو ٹارچر سیلوں میں بھی لے جاتی ہے مگر ختم نہیں ہوتی۔
جانم! مجھے لگتا ہے کہ محبت کا دن تیرے جنم پہ ہونا چاہیے تھا مگر میرا خیال ہے خیر سب کے محبوبہ کا جنم دن ان کا محبت کا دن ہو۔ مگر جب بھی محبت لفظ کی ابتدا سوچتا ہوں تم ہاد آتی ہو۔
جانم! تمھیں پتا ہے اس دن پر اس لیئے بھی ساری رات جاگنا پڑتا ہے کہ صبح کو جلدی اٹھ کر کہیں دل تیرے ملنے کی ضد نہ کرے تیرا ملنا ممکن تو ہے لیکن میں نے کہا نا کہ محبت کم بخت بھی مغربی تہذیب سی لگنی لگی ہے اور ملنا۔ ملنا تو ہے ہی مغربی تہذیب ناعوذ اللہ سوچو بھی مت۔۔۔
جانم! تم جانا اس باغ میں جہاں سے اکثر ہم پھول لایا کرتے تھے پھول بھی لینا اور چچا پھول فروش کو پیسے بھی کجھ زیادہ دینا شاید تمھیں اکیلا دیکھ کر وہ دعا نا دے سکیں جو ہر دفعا دیتے ہیں مگر خیر انھی یے بھی نہیں کہنا کہ میری کم بختی کی وجہ سے ان کی دعا بھی قبول نا ہو پائی۔
جانم! ایک پھول ھمیشہ کی طرح اپنے پسندیدہ ناول میں رکھ دینا کیوں کے پھول جنہیں تمہارے ھاتھ نصیب ہوی ہون وہ اپنی خوشبو کبھی نہیں چھوڑتے اور جب۔ جب تمہارے گھٹنوں میں دم نا رہے تو وہ پھول ان دنوں کی 14 فروری میں تمھیں کام آئیں گے اور شاید اس وقت تمہیں احساس ہو کہ پھول خریدنے جانا آساں نہیں ہوتا کیا کیا سہنا پڑتا ہے تو تبھی تمھیں مجھ سے شاید پھول نا دینی کی شکایت نا رہے۔
جانم! اس دن پر بہت یاد آتی ہے۔ مگر خیر تمھیں کیا پتا کے یاد میں جاگنے والوں کی آنکھیں کیسی ہوتی ہیں تمھیں کیا پتا کہ زیادہ نیند کرنے والے محبت کے دن بھی ایسا کیوں کرتے ہیں؟ تمھیں کیا پتا کے چاہ کے باوجود نا مل پانے کی اذیت میں آنکھوں کا رنگ کیون بدلتا ہے۔
جانم! تم یے سب جاننا بھی نہیں تم صرف یے جاننا کہ محبت مل جائے تو راتیں روشن کیوں ہوجاتی ہیں۔ اور محبت ملنے پہ زمین سرسبز کیوں لگتی یے۔۔۔۔۔چ
جانم! محبت کے دن پر پھول نہیں ہیں مگر پھر بھی مجھے تم سے محبت ہے اور محبت میں مفاصلہ یوں بھی ضروری ہے کہ یے مغربی روایت ہے۔۔
#واجد